مسلم معاشرے میں شادیوں کی بدلتی روش: سادگی سے اسراف تک
اسلام ہمیں ہر معاملے میں اعتدال، سادگی اور اخلاص کا سبق دیتا ہے۔ نکاح بھی انہی اصولوں پر مبنی ایک مقدس اور آسان عمل ہے۔ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں نکاح کو نہایت سادگی سے انجام دیا۔ نہ قیمتی زیورات، نہ بھاری بھرکم دعوتیں، نہ لمبی چوڑی رسومات—بس کھجور اور معمولی سا مہر۔ یہی ہمارے لیے اصل رہنمائی ہے۔
مگر آج کل ہم نے شادیاں ایسی بنا دی ہیں جیسے کوئی "پروجیکٹ" ہو—نمائش، فیشن، مقابلہ بازی اور بے تحاشا خرچ۔ کئی مہینے پہلے سے تیاریاں، مہنگے کارڈز، قیمتی کپڑے، زیورات، اور شاپنگ کے نام پر حد سے بڑھ جانا—یہ سب کچھ عام ہو گیا ہے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات "جہیز" ہے، جو کہ سراسر غیر اسلامی چیز ہے۔ مگر آج یہ ایسی رسم بن گئی ہے جس کے بغیر شادی کا تصور ہی مشکل ہے۔ والدین ساری زندگی کی کمائی لڑکی کے جہیز پر لگا دیتے ہیں، اور پھر بھی فکر یہ رہتی ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"۔ بعض اوقات لڑکے والوں کی طرف سے کار، موٹر سائیکل، یا گھر کا سامان مانگنا تو جیسے معمولی بات ہو گئی ہے۔ غریب والدین قرض میں ڈوب جاتے ہیں، اور لڑکی کو بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے۔
لیکن غلطی صرف لینے والوں کی نہیں، دینے والوں کی بھی ہے۔ دونوں طرف کی سوچ اس رسم کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
ویڈیو شوٹنگ، مہمانوں کے لیے الگ الگ فنکشنز، غیر شرعی رسمیں، اور دکھاوے کی رسمیں—سب کچھ دین سے دوری کی علامت بن چکا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب صرف کم پڑھے لکھے لوگوں تک محدود نہیں، بلکہ تعلیم یافتہ لوگ بھی انہی رسومات میں الجھے ہوئے ہیں۔ سنت، سادگی اور شریعت کہیں پیچھے رہ گئی ہے، اور فیشن، سوشل میڈیا اور نمود و نمائش نے جگہ لے لی ہے۔
سب سے زیادہ مار غریب طبقہ کھاتا ہے۔ ان کے لیے ان سب رسومات کی پیروی کرنا ناممکن بن جاتا ہے۔ وہ یا تو قرض لیتے ہیں یا پھر معاشرے کے طعنوں کا سامنا کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے: حل کیا ہے؟
یہ تبدیلی اوپر سے نہیں، ہم سے آئے گی۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی سوچ اور عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سادگی ہی اصل خوبصورتی ہے۔
سادہ اور سنت کے مطابق شادیاں کریں۔
جہیز لینے اور دینے، دونوں سے صاف انکار کریں۔
فضول خرچ رسموں اور بدعات سے مکمل اجتناب کریں۔
لوگوں کی باتوں کے بجائے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کو مقدم رکھیں۔
خود بھی سادگی اپنائیں اور دوسروں کو بھی اس طرف دعوت دیں۔
اگر ہم، یعنی آج کی نوجوان نسل، دل سے کوشش کریں، تو ان شاء اللہ ایک ایسا معاشرہ بن سکتا ہے جہاں لڑکیاں بوجھ نہیں بلکہ رحمت سمجھی جائیں، اور والدین عزت سے بیٹیوں کی رخصتی کر سکیں۔
یہی وہ روش ہے جو نہ صرف ہمیں دنیا میں سکون دے سکتی ہے، بلکہ آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
از: روبینہ تبسم ہتر کی
نکاح کا جائزہ لیکر آپ نے بہت ہی خوبصورت اور صحیح اپنی بات کو رکھی ہے اگر عورتوں میں دینی جذبہکا ہونا ضروری ہے
ReplyDeleteاپ کی پوسٹنگ بہترین ہے اور معاشرے کے لیے ضروری
ReplyDelete