دورِ حاضر میں سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام: ایک سنجیدہ جائزہ
آج ہم ایک ترقی پذیر دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ہر کام سیکنڈز میں ممکن ہو چکا ہے، اور تعلیم کا شعبہ بھی اس انقلاب سے مستثنیٰ نہیں۔ آج ایک موبائل فون میں پوری دنیا کی معلومات سمیٹی جا سکتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے سرکاری مدارس میں اس جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
کئی ایسے اساتذہ جو 50 سال کی عمر پار کر چکے ہیں، آج بھی روایتی طریقہ تعلیم پر قائم ہیں۔ وہ جدید تدریسی آلات یا ای-لرننگ کے تصور سے ناواقف یا اس کے استعمال سے خائف نظر آتے ہیں۔ ہر روز بدلتے تدریسی طریقہ کار اور طلبہ کی بدلتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ان کے لیے ایک ذہنی دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔ یہ دباؤ اکثر انہیں بیمار بھی کر دیتا ہے۔
ایسی صورت میں، جب ایک استاد جسمانی و ذہنی طور پر کمزور ہو، تو کیا وہ کلاس روم میں طلبہ کو معیاری تعلیم دے سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت اس مسئلے پر کب سنجیدگی سے غور کرے گی؟ کیا ہمارے بچوں کا مستقبل اسی خستہ نظام تعلیم کے رحم و کرم پر رہے گا؟
دوسری طرف ہمارے ملک کے کئی نوجوان ٹی ای ٹی اور سی ای ٹی جیسے امتحانات پاس کر کے جدید تدریسی مہارتوں سے لیس ہیں، لیکن یا تو بے روزگار ہیں یا نجی اداروں میں معمولی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ایسے باصلاحیت نوجوانوں کو سرکاری مدارس میں موقع فراہم کرے تاکہ وہ تعلیم کے معیار کو بلند کر سکیں؟.یہ وقت ہے کہ حکومت سنجیدہ اقدامات کرے:
55 سال کی عمر کے بعد اساتذہ کو سبکدوشی کی پالیسی پر غور کیا جائے۔
نوجوان، ٹیکنالوجی سے واقف اساتذہ کی بھرتی کی جائے۔
اسکولوں میں بنیادی سہولیات اور جدید تدریسی وسائل مہیا کیے جائیں۔
پرانے اساتذہ کے لیے ری ٹریننگ اور ذہنی سکون کی اسکیمیں لائی جائیں۔
کسی نے خوب کہا ہے:
> قوم کا باغباں استاد ہے، گر استاد برباد تو گلشن برباد
یہ وہ سچائی ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں کامیاب ہوں، تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو اپڈیٹ کرنا ہوگا۔ اس تبدیلی میں سب کی شمولیت ضروری ہے — حکومت، والدین، اساتذہ اور طلبہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
آئیے مل کر کوالٹی ایجوکیشن کی طرف قدم بڑھائیں۔
جے ہند
تحریر: روبینہ تبسم ہتّرکی
بہت خوب۔۔۔ آپ نے عین حالات کے تحت لکھا ہے میڈم بالکل صحیح فرمایا ۔۔میری طرف سے مبارک باد اور آپ کی یہ کوشش کامیاب ہوگی انشاءاللہ
ReplyDeleteدور حاضر کا تعلیمی نظام اس کا پس منظر بہت ہی خوبصور اور صحیح جائزہ لیکر آپ نے اپنی بات رکھی ہے قابل تعارف ہے کوالٹی تعلیم میں اساتذہ کا کردار اہی ہے اردو مدارس میں کوالٹی ایجوکیشن کی حالت بہت ہی خستہ ہے اگر ادساتذہ اپنی زمہداری کو سمجھنا ہے اور ہر طلبہ کی انفرادی توجہ دیں اورمنصوبہ کے تحت کام کریں جانچ مسلسل ہو
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteاسلام وعلیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔ ۔بالکل اپ نے بجا فرمایا اج کی ٹیکنالوجی کے زمانے میں ہم خاص کر اردو مدارس کے اسکول بہت پیچھے ہیں ہم تمام اساتذہ کو اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو اسے بھرپور فائدہ دینا چاہیے تاکہ ہمارے مدارس بھی قدم سے قدم ملا سکیں ۔۔اپ کی سوچ کو سلام اپ اور ہم سب مل کر اگر ہر مدارس میں سبھی ایسا سوچیں گے اور اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مدارس میں درس و تدریس دیں گے تو ہماری تدریس بھی کافی میسر ہوگی۔ انشاءاللہ۔
ReplyDelete